Friday 24 October 2014

social web

غلام رسول اور عمران خان

شفیق ملک shafiqmalikckl@yahoo.com
کسی مدرسے میں ایک طالب علم جس کے دوست کا نام غلام رسول تھااسے اس کا استاد جو بھی مضمون لکھنے کو دیتا وہ انٹرویعنی مضمون کا آغاز غلام رسول کے نام سے کرتا،ایک دفعہ اسے اس کے ٹیچر نے کہا کہ میرا بہترین دوست پہ مضمون لکھو،اس نے مضمون کا آغاز کیا کہ میر ا سب سے بہترین دوست غلام رسول ہے وہ میرا ہم عمر ہے ہم اکٹھے کھیلتے ہیں،اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے سکول جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ،دوسری دفعہ اسے میرا بہترین استاد پہ مضمون لکھنے کو کہا گیا اس نے لکھا امجد صاحب میرے بہترین استاد ہیں وہ مجھے بہت اچھا پڑھاتے ہیں وہ میرے دوست غلام رسول کے والد ہیں غلام رسول میر ابہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکو ل جا تے ہیں ،پھر اسے علامہ اقبال پہ مضمون لکھنے کو دیا گیا اس نے لکھا علامہ سر محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے وہ ہمارے قومی شاعر ہیں ان کی ایک بڑی مشہور کتاب بانگ درا ہے جو غلام رسول نے مجھے دی تھی غلام رسول میرا بہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکول جاتے ہیں استاد نے تنگ آ کے اسے قائداعظم پہ مضمون لکھنے کو دے دیا اس نے لکھا کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا وہ قوم کے روحانی باپ ہیں،انہوں نے ہمیں دنیا کا خوبصورت ترین خطہ پاکستان لیکر دیا پاکستان میں بے شمار خوبصورت مقامات ہیں جن میں سے کئی ایک میں نے غلام رسول کے ساتھ ملکر دیکھے ہوئے ہیں کیوں کہ غلام رسول میرا بہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکول جاتے ہیں اکٹھے کھیلتے ہیں,ٹیچر نے ہر حربہ آزما لیا کہ کسی طرح یہ غلام رسول کا :کھاڑا:چھوڑ دے مگر بات نہ بنی ،ٹیچر نے اپنے سنیئردوست سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے دوست نے کہا لڑکا مجھ سے ملواؤ اورجب ملویا گیا تو انہوں نے اسے جہاز پہ مضمون لکھنے کو دیا اور ساتھ میں تنبیہ بھی کر دی کہ اس میں غلام رسول نہ ہی ہو تو بہتر ہے،طالب علم نے مضمون لکھا کہ جہاز انسانیت کی ایک بڑی اور شاندار ایجاد ہے ،اسے رائٹ برادران نے ایجاد کیا اس نے مھینوں اور سالوں کے فاصلوں کو دنوں بلکہ گھنٹوں تک محدود کر دیا ہے ،جہا ز سفر کا نہایت ہی بہترین تیز اور آرام دہ ذریعہ ہے مجھے ایک دفعہ دبئی جانا پڑا،میں نے پاسپورٹ پہ ویزا لگوایا جہاز کی ٹکٹ لی اور مقررہ دن جہاز میں سوار ہو گیا،جہاز میں نہایت ہی خوش اخلاق عملے سے مجھے واسطہ پڑا ،خوبصورت عورتوں نے مجھے کھانا پیش کیا،راستے میں مجھے کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہوئی مجھے جو بھی چیز ضرورت تھی فراہم کی گئی،ایک ہفتہ دبئی رہنے کے بعد میں اپنے وطن کے لیے روانہ ہوا دوبارہ شاندار سفر کے بعد میں اپنے ملک میں واپس پہنچا ائر پورٹ پر مجھے لینے غلام رسول پہنچا ہوا تھا کیوں کہ غلام رسول میرا بہترین دوست ہے،ہم اکٹھے کیلتے ہیں اکھٹے پڑھتے ہیں ،ہم دونوں ہم عمر ہیں غلام رسول میرا بہترین دوست ہے، استاد بے چارہ سر پکڑ کے بیٹھ گیا اور کچھ ایسا ہی حال آجکل اپنے خان صاحب کا بھی ہے یہ صاحب جن کے کہنے پہ بھی لاہور سے چلے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاریخ کا دھارا بڑا بے رحم ہوتا ہے اور کچھ ہی وقت کے بعد سب کچھ عیاں کر دیتا ہے یہ بعد میں پتہ چلے گا اور سب کچھ پتہ چلے گا کہ کون کس کی ایما پہ کیا کرتا رہا فی الحال دھرنا فیم انقلاب اور آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں،کہ ان کے مطالبات کیا ہیں کتنے جائز اور کس حد تک نا قابل قبول ہیں،علامہ کینیڈا کی تو بات ہی چھوڑیں کیوں کہ وہ اس سسٹم کے ہی باغی ہیں بلکہ ہر اس سسٹم کے جس میں انہیں حصہ نہ ملے، ووٹ لوگ دیتے نہیں ان کو اور ویسے اقتدار ملنے کی کوئی آس اب ہے نہیں اس لیے وہ سارے نظام کو کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہتے ہیں کہ کیا فائدہ اس نظام کا جو ان کی شیخ الاسلامی سے راہنمائی لینے کے لیے ایک انچ بھی تیا ر نہیں،ہم بات کرتے ہیں اپنے خان صاحب کی کہ جن کو اس قوم کی ایک بڑی تعداد نے بے پناہ ووٹ دیکر ان اسمبلی میں بھیجا،مسیحا سمجھ کے ایک صوبے کی عنان ان کے حوالے کی اور بجائے اس کے کہ جناب کچھ کر کے دکھاتے نجانے کس کے :آکھے: لگ کے اڑتی مرغابی کے پیچھے لگ کے بغل میں دبی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے،چلیں اگر آپ دھرنا دھرنا کرتے اسلام آباد آ ہی پہنچے تو تھوڑی سیاست بھی سیکھ ہی لیتے اپنے اتالیق شیخ رشید سے،سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا یہ ٹائمنگ کا کھیل ہے اس میں بہترین وقت میں بہترین فیصلہ کرنے والے ہی آگے بڑھتے ہیں،آپ نے جس طرح کا پریشر ڈیولپ کر لیا تھا آپ کی ہر بات مان لی جاتی سوائے غلام رسول معاف کیجیے گا وزیر اعظم کے استعفے کے،جب ساری پارلیمنٹ یک جان ہو گئی ملک کی سول سوسائٹی آپ اور آپ کے سر پرستوں یعنی لندن امریکہ اور کینیڈا کے ارادے بھانپ گئی، میڈیا،وکلابرادری اور عدلیہ پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے آہنی دیوار بن گئی تو آپ کو فوراً سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ اب اپنے مطالبات سے غلام رسول کو نکال دینا چاہیے اور واپسی کی باعزت راہ نکالنی چاہیے،آپ چاہتے تو ان کو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دے کر عوامی حمایت کی ایک بڑی لہر اپنے ساتھ شامل کر لیتے،آپ چاہتے تو پورے ملک میں نظام تعلیم یکساں کر وا سکتے تھے،آپ چاہتے تو بلدیاتی الیکشن کی تاریخ لیکر پاکستان کی نسلوں پر احسان کر سکتے تھے،آپ چاہتے تو پورے ملک سے ریڈ زون اڑا کر وی آئی پی کلچر کی دھجیاں بکھیردیتے ،مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام کے لیے کوئی برا پیکج لے لیتے،سیلاب متاء ثرین کو فقط سعد رفیقوں او ر احسن اقبالوں پہ چھوڑنے کی بجائے کو ئی ڈھنگ کا پاکستانی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا انچارج بنا کے سارا ریلیف کا نظام اس کے حوالے کرتے تا کہ اس قوم کے لمبے بوٹ پہنے پانی میں کھڑے کیمروں کی طرف چور آنکھوں سے دیکھتے جوکروں سے نجات ملتی مگر آپ کی ہر تان اوے نواز شریف اور جب تک وزیراعظم استعفےٰ نہیں دیں گے نہیں بلکہ نہیں دے گا میں یہاں سے نہیں جاؤں گا،آپ چاہتے تو سارا انتخابی نظام الیکٹرانک سسٹم سے منسلک کر وا لیتے جیسے چاہتے انتخابی اصلاحات کروا لتے مگر جو آپ کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ آپ کا تمام جو ش و خروش خالی خولی انڈونچر بازی سے زیادہ کچھ نہیں زیادہ دور اور لمبی بات کی بجائے صرف نیٹو سپلائی کی بات کرتا ہوں یقینناً آپ کو یاد ہو گا جب جناب نے خیبر پختونخواہ سے سپلائی کی بندش کا اعلان کر دیا اور نونہلان انقلاب پشاور موٹروے ٹول پلازے پر پٹھان ڈرائیورو ں سے :کاغذات: چیک کرتے رہے،اب وہی سپلائی ہے اور وہی خیبر پختونخواہ حکومت مگر،،،اور ادھر حالات یہ ہیں کہ ایک طرف مذاکرات جاری ہیں دوسری طرف میں نہیں جاؤں گا جب تک وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دے گا میں نہیں جاؤں گا،اصل میں قصور سارا خان صاحب کا بھی نہیں دو چار سیاستدان جن کو اس ملک کا بچہ بچہ جانتا پہچانتا ہے اور دو تین کالم نگار جن میں ایک صاحب کا تعلق اپنے شہر سے بھی ہے جو اکثر چند ہزار لوگوں کے جمگٹھے کو فی الفور انقلاب اور تبدیلی کا نام دے دیتے ہیں عمران خان کو اس دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں،عمران خان سنجیدہ طرز سیاست اپنائیں آئین اور قانون کا راستہ اختیا ر کریں اور جتنا موقع ملا اسے غنیمت جانیں ،خدا کے لیے اب ملک مزید عزیز ہم وطنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ،اس ملک اور قوم پر رحم کریں اور اپنے جائز مطالبات تسلیم کروائیں مذاکراتی ٹیم کو اپنا کام کرے دیں اورفوج جس صفائی ستھرائی میں لگی ہے اسے یکسوئی سے اپنا کام کرنے دیں کہ وہی اس قوم کے اصلی محسن ہیں وہ جس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس میں اگر کامیاب ہو گئے اور انشاء اللہ ضرور ہوں گے تو یہی اصلی انقلاب ہو گا جب ملک میں امن اور سکون ہوگا لوگ گھروں بازاروں اور مسجدوں میں محفوظ ہوں گے آپ خود بھی ریسٹ کریں اور غلام رسول کو بھی تھوڑا آرم کرنے دیں،،،اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو،،،،، 

اور پاکستان انقلاب سے بال بال بچ گیا!

شفیق ملک
فرشتہ اجل کی اک پھونک کی محتاج سانسوں کی ڈور،زندگی،کاسہ حیات،زیست مختصر،تار نفس کے انداز نرالے ہیں،اس صداقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ انسان فطرت کے بہت سے گہرے رازوں تک رسائی پا چکا ہے اور دن رات اسی جستجو میں ہے،وہ اپنی کوشش اور لگن میں ایک طرف آسمان کو چھوتی چوٹیوں کو اپنے پاؤں تل روند چکا تو دوسری طرف زمین کے اندر پاتال تک جا کر جی ہاں پینتیس ہزار سے لیکر پچھتر ہزار میٹر تک کھدائی کر کے تیل نکال رہا ہے ،ایک طرف چاند سے گزر کر مریخ پر جا پہنچا تو دوسری طر ف مصنوعی بارش اور سمندروں کے سمندر کنگھال رہاہے لیکن یہ سب کچھ ایک منظم اور مربوط قوت اور ہمت کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے،جوں جوں وقت تبدیل ہوتا گیا انسانی معیارات اور میزان بھی تبدیل ہوتے گئے،آج کسی کوبے وقوف بنانا مشکل بلکہ تقریباناممکن،کبھی لفظوں کے جادو گر انسانوں کو ہپناٹائز کر لیتے تھے ،لوگ اپنی مرضی کامنجن تیار کر کے مرضی کے دام وصول کر لیتے تھے، وہ دور چلا گیا مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا جو آج بھی سمجھتے ہیں کہ اپنی پسند کا سودا تیار کر کے من مانے ریٹس ہر فروخت کر لیں گے،بے خبروں کو پتہ ہی نہیں کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور وہ ابھی تک کچھوے کی رفتا ر چھوڑنے کو تیار نہیں،آج کوئی بات چھپانا یا دبانا ممکن ہی نہیں رہا،اول تو خود ہی بولتے بولتے پھسل جاتے ہیں نہ بھی بولیں تو الیکٹرونک میڈیا (پرویز مشرف کا واحد قابل تعریف کام) ،ڈویژن اور ضلعوں کے علاوہ تحصیل سطح تک جڑیں رکھتے نیوز نیٹ ورک،انتہائی نا معقول معاوضوں پہ دیمک کی طرح ہر کھڑکی اور روزن تک رسائی رکھتے رپورٹرز اور کیمروں کے ہوتے اب کچھ چھپانا ممکن ہی نہیں رہا اور اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو لازم ہے کہ اپنے دماغ کا طبی معائنہ کرائے،انقلاب اور آزادی کی رتھوں پہ سوار وں نے سوچا ہم سب کچھ کر گزریں گے کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو گی،تیرہ مارچ سے ایک ایک دن اور ایک ایک حرکت کا موازنہ کریں تو پانچویں جماعت کے بچے کو بھی سمجھ آجائے کہ ان دھرنوں کی آڑ میں اصل مقاصد کیا تھے ، قوم نے اب ان کے عزائم اچھی طرح بھانپ لیے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی ڈوری کس کے ہاتھ میں ہے،دونوں نے بیک وقت ایک ہی قسم کا اعلان کیا اور کہا گیا یہ محض اتفاق ہے اب اتفاقات دیکھئے ایک لندن میں پہنچا دوسرا بھی اتفاقاً وہاں آ نکلا ،دونوں کی غیر ملکیوں کی موجودگی میں ہوٹل میں اتفاقاً ملاقات ہو گئی،ایک نے لاہور سے اپنی جدوجہد شروع کرنیکا اعلان کیا تو اتفاقاًدوسرے نے بھی لاہور سے ہی اعلان کر دیا،اتفاق سے ایک صاحب نے جشن آزادی کے دن کا انتخاب کیا تو دوسرے صاحب نے بھی 14اگست لاہور میں منانے کا اعلان کر دیا،ایک صاحب نے شام کو اسلام آباد کیلئے رخت سفر باندھا اتفاقاً اسی وقت دوسرے صاحب نے بھی روانگی کا حکم دے دیا،اب آگے عجیب اتفاق ہوا مولانا کینیڈا آگے تھے جبکہ آزادی خان پیچھے مگر مندرہ کے قریب عجیب اتفاق ہوا کہ خان صاحب رانگ سائیڈ سے آگے نکل گئے نہ صرف خود بلکہ پورا لشکر اور اتفاق دیکھئے کہ نہ کوئی سڑک بلاک ہوئی نہ رستہ بند ہوا،اتفاقاً دونوں جلوس ایک ہی وقت میں اسلام آباد پہنچے،ایک ہی طرح کی دو کھلی سڑکوں پر قبضہ کیا،اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر اور حمایت کے لیے بے جا اور بے تکے نعرے لگائے،اتفاقاً دونوں طرف سے اعلان ہوئے کہ پولیس کو گلی مار و مگر فوج زندہ باد ،خود فوج حیران پریشان ہو گئی کہ اس بے تکی مداحیت پہ میں روؤں یا ہنسوں کروں میں کیا کروں والی کیفیت بن گئی،دونوں نے قوم کو چوبیس گھنٹے کبھی چھتس گھنٹے اور کبھی دو دن کے بعد خوشخبریا ں ملنے کی آس امیدیں دلائیں،ایمپائرکی انگلیوں کے اٹھنے کے مژدے سنائے دوسری طرف ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام جمہوری قوتیں،سول سوسائٹی،وکلا،عدلیہ ،فوج اور میڈیا اپنی جگہ ڈٹ گئے کہ کوئی بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی راستہ نہ اختیار کیا جائے گا نہ برداشت کیا جائے گا،جس سے ان کے غیر ملکی سرپرستوں کو شدید ترین دھچکا لگا،پھر دونوں کو ایک اتفاق نے بیک وقت ریڈ زو ن داخلے پر مجبور کر دیا،پھر اگلا اتفاق وزیراعظم ہاؤس کے اندر گھسانا چاہتا تھا کہ حکومت کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ڈنڈے اٹھائے وزیر اعظم ہاؤس فتح کرنے والا لشکر پورس کے ہاتھیوں کی طرح واپس لشکر کی طرف پلٹ پڑا ،دونوں کنٹینرز بردار کنٹینروں میں دبک گئے اور پھر اتفاقاًدونوں کنٹینروں کے ساؤنڈ سسٹم سے اعلانات ہوئے کہ ہمارا ارادہ وزیر اعظم ہاؤس کی طرف جانے کا ہر گز نہیں تھا،پھر اتفاقاً دونوں اپنی اپنی جگہ پہ واپس آگئے اور تاحال اتفاق ان کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہا،نہ کوئی ایجنڈا نہ ڈھنگ کا مطالبہ فقط :نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے:مگر بہت کچھ عیاں ہو چکا ان کے چالیسویں تک قوم سب کچھ سمجھ چکی کون کیا ہے اور کیا ارادہ رکھتا ہے سب کچھ سامنے آچکا،لندن پلان چند جاتے ہوئے زور آوروں اور کینیڈین و امریکی ڈالروں کے عوض اس قوم کو ذلت کی پاتال میں گرانے کی مذموم سازش بے نقاب ہو چکی،تمام تفصیل کا ایک ایک لفظانتہائی معتبر اخبار نویس سلیم صافی اپنی تحریر میں واضح کر چکے ،جن پہ چاروں طرف سے اہلیان انقلاب اور پاسداران آزادی نے تبروں کی یلغار کر رکھی ہے،مگر سورج پہ نہ کوڑا پھینکا جا سکتا ھے نہ تھوکنا ممکن ہے کہ دونوں صورتوں میں گند اپنے چہرے پہ گرتا ہے،قدرت نے پاکستان اور پاکستانی عوام پہ اپنا فضل و کرم جاری رکھا پہلے بارش اور اب عید آگئی ،لکی عمرانی سرکس اور کنیڈین شو تمام ہونے کو ہے ،جو انقلاب یہ لیکر آنا چاہتے تھے یا جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے اگر آجاتی تو اس میں پاکستان تبدیل تو کیا ہوتا دہائیوں پیچھے چلا جاتا ،اور مصیبت و افلاس میں گھری قوم مزیدغم واندوھ میں گھر جاتی، ان دونوں حضرات کامطلوبہ انقلاب اور تبدیلی جب آرمی چیف سے ملاقات کو روانہ ہوئے دھرنے کے عین درمیان میں تو ان کی باڈی لینگوئج سمجھا رہی تھی کہ یہ کیا چاہتے ہیں ،اللہ نے اس قوم پہ رحم کیا،پارلیمنٹ نے یکجان ہو کر سپریم ادارہ ہونا ثابت کیاتو قوم نے ایک لاکھ موٹر سائیکل والی درفطنی پہ کا ن نہ دھر کے باشعور ہونے کا واضح ثبوت پیش کر دیا،وزیر اعظم کو ئی بھی ہو اور حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو آنے جانے اور ہٹنے ہٹانے کا ایک آئینی طریقہ موجود ہے،سرپرستوں نے سرمائے یعنی ڈالروں سے بھرپور سرپرستی کی مگر اندر جنھوں نے تبدیلی لانی تھی ان کے سربراہ نے گھاس نہ ڈالی یوں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی پوزیشن بن گئی،اب اوئے اوئے کرتے پوزیشن یہ بن گئی کہ اوئے کوئی تو آؤ ہمیں منانے مگر،جنھوں نے منانا تھا وہ امریکہ میں ہیں اور قوم دوہری خوشی کی تیاریوں میں مصروف ہے،ایک خوشی یہ کہ عید قربان کی آمد آمد اور دوسری؟؟؟؟؟جی ہاں دوسری یہ کہ پاکستان ان کے انقلاب سے بال بال بچ گیا،،،،،،،،

ذرا ک نظر ادھر بھی

نبیلہ شمیم nabilashamim011@gmail.com

تلہ گنگ تحصیل جسے شہیدوں اور غازیوں کی واحد تحصیل ہونیکا رتبہ اور مرتبہ حاصل ہے،یہ تحصیل 84 اور ایک اور محتاط اندازے کے مطابق چھیاسی گاؤں دیہاتوں پر مشتمل ہے،اس علاقے کے گاؤں کو عموماً گراں کہا جاتا ہے،اس تحصیل کا کوئی قصبہ یا گراں ایسا نہیں جہاں کسی نہ کسی شہید کی قبر نہ ہو،اس تحصیل کے مشرقی سمت دیہاتوں کا ایک بہت بڑا اور وسیع سلسلہ ہے یہاں پہ صوبائی اسمبلی کے دوجبکہ ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہے،ان دیہاتوں میں ایک گاؤں یا گراں ڈھلی بھی ہے ،جو ڈھلی بھگٹال کے نام سے مشہور ہے جبکہ حقیقت میں ڈھلی اور بھگٹال دو الگ الگ گاؤں ہیں مگر انتہائی قریب قریب واقع ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو ہی ڈھلی بھگٹال کے نام سے جانا مانا جاتا ہے ،ڈھلی گاؤں کی آبادی لگ بھگ چھ ہزار کے قریب ہے،فضا میں ہلکی خنکی لیے صبح کی پرنور روشنی جیسے ہی اپنے وجود سے نکل کر زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے مرغوں کی آوازسارے گاؤں میں گونج اٹھتی ہے اور کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صبح کا اجالا بار بار کہہ رہا ہو کہ اے اجلے لوگو اٹھو کہ منزل بہت ہی قریب ہے،اب مزید سوکے اپنا قیمتی وقت ضائع مت کر و اٹھو اور خدا کے بخشے ایک نئے دن کو اچھے اور مفید کاموں میں استعمال کرو،موذن اذان کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اس نیند سے بیدار ہو جانا تمھارے حق میں بہتر ہے،اٹھو اور آجاؤ دائمی فلاح اور کامیابی کی طرف،اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی بزرگ مرد خود اٹھ کے شفقت،علی،تنویر ،عثمان اٹھ جاؤ شاباش نماز کا وقت ہو گیا ہے کی آواز لگاتے ہیں ،بچے آنکھیں ملتے اٹھ کے بزرگوں کے پیچھے مسجد کی جانب رواں دواں نظر آتے ہیں ،مرد مسجد جاتے ہیں تو خواتین گھر میں نماز تلاوت اور تسبیح سے فارغ ہو کہ اپنی پکی اینٹوں سے بنے کچے چولہے پر چائے کی دیگچی چڑھا دیتی ہیں،چولہے سے اٹھتا دھواں لمبی قطار میں یوں بلند ہورہا ہوتا ہے جیسے پورے گھر کے گذرے کل کے غم دکھ اور تکالیف اپنے اندر سموئے ہمیشہ کے لیے دورروانہ ہو رہا ہے آہستہ آہستہ سورج کی شعاعیں اپنے اندر امید کی ایک نئی کرن لئے پورے گاؤں میں اجالا کر دیتی ہیں،پرندے سویرے سویرے چہچہاتے اور اپنے مخصوص انداز میں اٹھکیلیاں کرتے کھیتوں کی طرف اس مزدور کی طرح رخ کر لیتے ہیں ،جس سے اس کا رزق وابستہ ہوتا ہے،خواتین بچوں کو ناشتہ دے کر ان کو سکول کے لیے روانہ کرتی ہیں،مرد اپنے مال مویشی کو اپنے آگے لگائے کھیتوں کی طرف چل پڑتے ہیں،جہاں لہلہاتے فصل ہوا سے سرگوشی کرتے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں اس گاؤں میں پانچ اسکول ہیں جن میں سے دو گورنمنٹ ،دو پرائیویٹ اور ایک مکتب یعنی مدرسہ ہے جہاں غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے،اس گاؤں میں بھی برادری اور ذات پات کا سسٹم موجود ہے،یہاں ہر برادری اور ذات کے لوگ موجود ہیں،گاؤں کی اپنی مخصوص پنجابی ثقافت ہے اور یہ لوگ اپنی اس ثقافت کے بارے میں انتہائی حساس ہیں،یہ پنجابی زبان کا استعمال کرتے ہیں،خوراک میں دیسی روٹی ،سبزی دال چاول ،گھی مکھن،لسی دودھ،چائے اور حلوے کا عام استعمال ہے،گرمیوں میں تندور کی گرم روٹی کو مکھن یا گھی سے چپڑ کر لسی کے ساتھ کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے جس کی لذت کا اندازہ کھائے بغیر ممکن ہی نہیں،اس کے علاوہ دیسی مرغیوں کے انڈے اور ان کا گوشت بھی عام استعمال کیا جاتا ہے،قربانی بھی یہ لوگ قربانی کی اصل روح کے مطابق کرتے ہیں یعنی گھر میں رکھا اور نازوں سے پال پوس کے جوان کیے گئے دنبے بکرے اور بیل کو ذبح کیا جاتا ہے،اس علاقے میں کسی بھی قسم کی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا واحد ذریعہ آمدن زراعت ہے،جسے اب آہستہ آہستہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجارہا ہے ،یہاں لوگ گندم ،مکئی ،باجرا جو ،چنے اور مونگ پھلی کاشت کرتے ہیں،شادی بیاہ میں برادری سسٹم،وٹہ سٹہ اس کے علاوہ ولیجوازم(ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں) میں شادی کرنے کا رواج عام ہے اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی شادی میں گاؤں کے تمام افراد کو مدعو کیا جاتا ہے،خواتین اپنے مخصوص انداز میں پنجابی گانے گاتی ہیں جو اصل میں ایک دعا یا نیک خواہشات کا اظہار ہوتا ہے،نکاح عموماً صبح کے وقت کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے باقی کام کاج بھی مکمل کر سکیں،اس ثقافت میں جہیز کی لعنت اور اس کی نمائش کے جراثیم ابھی تک بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا تعلیم کی ترقی کے بغیر خاتمہ تقریباً نا ممکن ہے،غریب والدین نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کا جہیز مکمل کرتے ہیں اور اس کے لیے نسلیں تک گروی رکھ دیتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کی بیٹی کی آنیوالی زندگی پرسکون گذرے،دوسری شادی اور طلاق نہ ہونے کے برابر ہیں،گاؤں کے نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے تاہم ہاکی یا فٹ بال کے ورلڈ کپ کے دوران یہ دونوں کھیل بھی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر لیتے ہیں مگر صرف وقتی طور پر،اس گاؤں بلکہ علاقے میں خواتین ابھی تک مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی ہیں اس کے علاوہ خواتین کی اکثریت ابھی تک پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتی ہے یہ اپنے گھریلومسائل سلجھانے کے لیے جعلی بابوں اور ملنگو ں کے پاس جاتی ہیں اور نتیجے میں پچھلے مسائل حل کیا ہوں نئے مسائل میں پھنس جاتی ہیں تاہم اب نوجوان نسل جو تعلیم اور شعور کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے کافی حد تک اس پیر پرستی سے بیزار نظر آتی ہے،اب بچے بچیاں دونوں آہستہ آہستہ تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں ،اگرچہ وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ گاؤں کی ثقافت میں بھی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے،لیکن تاہم اس بڑے گاؤں میں علاج معالجے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے،لوگوں کو بیماری کی صورت میں تلہ گنگ اور چکوال جانا پڑتا ہے،اور مرض کی نوعیت اگر شدید ہو تو اسے راولپنڈی لے جانا پڑتا ہے،اکثر غریب اور نادار لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مکمل علاج نہیں کرواسکتے،میری اس علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے گذارش ہے کہ ان لوگوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا آپ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا کہ آپ ان کے مسائل حل کریں گے تو خدارا ان کی امیدوں پر پانی مت پھیریں اور ان کی بہتری اور فلاح کے لیے ہر مکن اقدامات کریں،
آخر میں ایک نظم کے چند اشعار
وہ جن درختوں کی چھاؤں سے
مسافروں کو اٹھا دیا تھا
اگلے برس ان درختوں سے پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
گذرے تھے ہم پہ رنج سارے زمانے کے
جو خود پہ گذرے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا ایک ضعیف دہکاں،سڑک کے بننے پہ 
کیوں بلاوجہ خفا تھا،
جو اس کے بچے شہر جا کے کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
اور جب اس کے کمرے سے اس کا بے حس بدن نکلا
تو کوئی نہ سمجھ سکا یہ فلسفہ کہ کیوں مر گئی یہ اس عمر میں
جب خود محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے

یہاں نہ کسی ہاشمی کی ضرورت ہے نہ ایسے آدمی کی

شفیق ملک shafiqmalikckl@yahoo.com
پاکستان تحریک انصاف کو مبارک ہو کو کہ قوم کی نظر میں باغی اور ان کی نظر میں داغی ہا ر گیا ور قوم کی نظر میں داغی اور پی ٹی آئی کی نظر میں اصل محب وطن عامر ڈوگر جیت گیا،یقینانیا پاکستان عامر ڈوگر ،شاہ محمود قریشی اور ہر دلعزیزشیخ رشید کی ہی قیادت میں اپنی منزل پر پہنچے گا ،قوم حوصلہ رکھے جس جس نے بھی نے نئے پاکستان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی اس کا حشر جاوید ہاشمی سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا،آپ اس جمہوری جماعت کی جمہوریت کا اندازہ کریں کہ جمہوری طریقے سے منتخب صدر کو جناب خان صاحب کے ایک اشارہ ابرو پہ گھر بھیج دیا گیا اور اس منتخب صدر کو منتخب کرنے والے دس فی صد لوگ بھی اس کے ساتھ نہ تھے،کیا کمال اور لازوال جمہوریت ہے،کیا کسی بھی شخص میں جراء ت ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری یا الطاف حسین و اسفند یار ولی کی رائے سے اختلاف کر سکیں نہیں نہ مگر یہاں تو او میاں صاحب تبدیلی آچکی ہے نیا پاکستان بن رہا ہے کیا نیا پاکستان بھی ایسا ہی بننا ہے تو پھر پرانے میں کیا برائی ہے،عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی اگر کسی نے پتہ کرنی ہے تو خیبر پی کے کا ایک چکر لگا لے،نواب آف کالا باغ کی پوتی سے پتہ کر لے حفیظ اللہ نیازی سے پوچھ لے یا پھر اسپیکر صوبائی اسمبلی کے پی کے سے خیر خبرمعلوم کرے،نئے پاکستان کے خدو خال کافی حد تک واضح ہو جائیں گے،پی ٹی آئی نے ان الیکشن میں کیسی شاندار فتح حاصل کی کہ ہاشمی کھو کر ڈوگر پا لیا ،ڈوگر کو سارا ملتان جانتا ہے جبکہ ہاشمی کو ساراپاکستان،عامر ڈوگر کے ساتھ ہاشمی کا موازنہ بنتا ہے نہ میں کروں گا میں کسی کی برائی بھی بیان نہیں کروں گا کہ یہ گناہ عظیم ہے صرف چند حقائق سامنے لانے کی جسارت کروں گا جس کے جواب میں حسب معمول نونہالان انقلاب کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ آئے گی مگر نہیں پروا کہ وہ جس طرح گالیاں دینے میں کمال حاصل کر چکے ہیں ہم گالیاں سننے میں ملکہ حاصل کر چکے ہیں ،تو پی ٹی آئی نے ڈوگر پایا ہاشمی کھویا کون ہاشمی وہ ہاشمی جس کی ساری زندگی جمہوریت کی نظر ہو گئی،وہ ہاشمی جسے 1973میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اسکی جوانی کے ایام میں لندن میں پاکستان کا ہائی کمشنر بننے کی پیشکش کی اور بدلے میں گذارش کی کہ وہ حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہ بنے مگر ہاشمی نے بھٹو کی ایک نہ سنی،وہ ہاشمی جس نے ضیاء الحق جیسے کوڑے مار ڈکٹیٹر کو قومی اسمبلی کے فلور پہ للکارا کہ تم ایک آمر ہو تمہیں اس ایوان سے خطاب کا کوئی حق نہیں،نتیجے میں وزارت بھی گئی اور رکنیت بھی ،جی ہاں وہ ہاشمی جو بردہ فروش ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سامنے اس وقت ڈٹ گیا جب کوئی میاں برادران کا نام لینے کی جراء ت بھی نہیں کرپاتا تھا،ہاشمی چاہتا تو میاں اظہر بن کر ق لیگ کی قیادت سنبھال لیتا اور من مرضی کا عہدہ حاصل کر کے مزے کرتا،مگر جب کوئی پرویزی حربہ ہاشمی پہ اثر انداز نہ ہواتو اسے بغاوت کے جرم میں 22 سال قید کی سزا سنا دی گئی،یہ ہاشمی کھو دیا پی ٹی آئی نے اور بدلے میں ڈوگر پا لیامبارک ہو ،ہاشمی وہ شخص تھا کہ جس نے2008میں پیپلز پارٹی کی کولیشن کابینہ میں شامل ہونے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اسے پرویز مشرف سے حلف کے ذریعے وطن سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑتا باقی دوستوں نے اٹھا لیا لیکن ہاشمی سے یہ کم از کم منافقت بھی نہ ہوپائی،ہاشمی جس نے عین عروج کے وقت پاکستان مسلم لیگ نون کو چھوڑ دیا،چاہتا تو اپنی پسندکے عین مطابق کوئی بھی عہدہ لیکر عیش کرتا اپنا بازو اپنے گلے کے ساتھ جوڑے رکھنے کی بجائے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں اپنا علاج کرواتا،مگر اس نے نہ صرف ن لیگ کو چھوڑا بلکہ تحریک انصاف کو ملک کی نجات دہندہ سمجھ کر دھڑلے سے اس میں شامل ہو گیا،وہ ہاشمی ہار گیا جس نے پوری تحریک انصاف میں سب سے پہلے استعفیٰ دیکر تمام پردھانوں کے منہ پر تمانچہ رسید کر دیا کہ استعفے کا اعلان کرنے اور دینے میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کمال حیرت ہے کہ وہ جو کہتے تھے کہ جونہی عمران اعلان کرے گا میں بھی اسمبلی میں موجود اپنی واحد نشست چھو ڑ کر عمران کے ٹرک پہ سوار ہوجاؤں گا مگر وہ ٹرک پہ تو شانہ بشانہ ہے مگر اسمبلی ابھی تک نہیں چھوڑی جا رہی جناب شیخ جی سے،ہاشمی اس جماعت سے ہار گیا جس کا صدر تھا،جو یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن کا سارا پراسس ہی اصلاحات کے بغیر عبث ہے اس نے نہ صرف الیکشن میں حصہ لیا بلکہ اپنے صدر کو ہرانے کے بعد نتائج کو تسلیم کر کے بڑھکیں بھی لگائیں،کیا اصول پرست جماعت ہے کہ جھوٹی انا کی خاطر پیپلز پارٹی کے امید وار کی حمایت میں دن رات ایک کر دیئے جبکہ جلسوں میں اوے زرداری اوئے زرداری تمھیں نہیں چھوڑیں گے کیا یہ کھلا تضاد ہے یا منافقت کی اعلیٰ ترین مثال،ہاشمی نے اپنی جماعت کے عین شباب میں تحریک انصاف کی پالیسیوں پر شدید نقطہ چینی کی اور جماعت کوغیر جمہوری قوتوں اور افراد کے ہاتھوں یرغمال بنتا دیکھ کراور کھوٹے سکوں کی بارش کے قطروں کی طرح پارٹی میں آمد پر آسمان سر پر اٹھا لیا،اور چیخ چیخ کر کہا کہ غلط راستے پر چل پڑے ہو منزل کھو دو گے،جمہوریت کو چلنے دو اسی میں ملک کی بقا ہے،اسی سسٹم میں رہ کر سسٹم کو ٹھیک کرو،شارٹ کٹ تباہی کی طرف لے جائے گا پارٹی کو بھی اور پاکستان کو بھی،نیا پاکستان بنانا ہے تو پرانے اور فرسودہ نظام کے ساتھ لوگوں سے بھی جان چھڑاؤ،کل تک پرویزی اور زرداری کابینہ کے لوگ کیا اور کیسی تبدیلی لاسکتے ہیں قوم ان کو جانتی ہے،مگر ہاشمی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی جو پرائیویٹ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی آوازوں میں دب گئی،جب کچھ نہ بن پایا تو یہ سدا کا باغٰ باغ باغی حسب معمول الگ ہو کر اپنے آبائی وطن سدھارا،اور جانے سے پہلے قوم سے کیا ہوا وعدہ کہ پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفیٰ دے گی حالانکہ اسے اس سے سخت اختلاف تھا مگر پارٹی قیادت کا فیصلہ تھا سو یہ بھی اس میں شامل ہوا اگلے دن اسمبلی میں پہنچ کر سب سے پہلے استعفیٰ دیکر استعفیٰ استعفی کرنے والوں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جو ناکام کوشش تھی کہ اب ڈھیٹ پن اس حد تک پہنچ چکا کہ چھوٹی موٹی کوئی شے ہمیں اب شرمندہ نہیں کر سکتی ہاشمی کو ہرا کر تحریک انصاف جیتی نہیں بلکہ ہاری ہے اور ہاشمی ہار کے بھی ہارا نہیں جیتا ہے،ہاشمی نے سیاست اس وقت شرو ع کی جب نواز شریف ،زرداری اور اوئے اوئے کرتے عمران خان کو سیاست کی الف ب کا بھی نہیں پتہ تھانئے پاکستان کی شروعات ہو چکی ہے قوم انتظاراور دعا کرے کہ شاید کبھی اس کے دن بدلیں اور کسی حقیقی نئے پاکستان کا سو رج طلوع ہو کیوں کہ موجودہ پاکستان کو کسی سرپھرے ہاشمی کی ضرورت ہے نہ کسی ایسے آدمی کی ،ایسا آدمی کسی پارٹی کو وارا ہے نہ ایسوں کی کوئی گنجائش ہی ہے اپنے ہاں، ہاشمی کھو کر عامر ڈوگر پا لینا اگر گھاٹے کی بجائے فائدے کا سودا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کو یہ تحفہ مبارک ہو،،،،،،،،اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو